منگل 18 مارچ 2025 - 07:50
کوئی بھی دین حیوانات کے حقوق کا اتنا خیال نہیں رکھتا جتنا اسلام رکھتا ہے: حجت‌الاسلام والمسلمین مؤمنی

حوزہ/ حرم مطہر حضرت معصومہ (س) کے خطیب نے کہا کہ کسی بھی دین میں اور کسی بھی مکتب میں، مکتب اہل‌بیت (ع) کی طرح حیوانات کے حقوق کا خیال رکھنے کی تاکید نہیں کی گئی۔ اگر بعض حیوانات سے دور رہنے کی ہدایت کی گئی ہے، تو یہ صرف ان کے انسانوں اور دیگر حیوانات پر پڑنے والے منفی اثرات کی وجہ سے ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حرم مطہر حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) کے خطیب حجت‌الاسلام والمسلمین سید حسین مؤمنی نے مجلس عزا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر روح بیمار ہو جائے تو اس کے اثرات جسم پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ اگر انسان اپنی روحانی بیماریوں کا خیال نہ رکھے تو وہ جسم اور روح دونوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، حسد انسان کے دل کو اس قابل نہیں چھوڑتا کہ وہ الہام الٰہی کو سمجھ سکے۔

انہوں نے ایک حدیث کی روشنی میں کہا کہ جس دل میں تین بڑی بیماریاں ہوں—خودپسندی و تکبر، ریاکاری و دکھاوا، اور دنیاوی حرص—وہ ایک اجڑے ہوئے ویرانے کی مانند ہو جاتا ہے، جس میں کوئی روشنی، کوئی روحانی سرور اور کوئی حقیقی سکون باقی نہیں رہتا۔

حجت‌الاسلام مؤمنی نے زور دے کر کہا کہ اسلام میں حیوانات کے حقوق کی جتنی تاکید کی گئی ہے، کسی اور دین میں نہیں کی گئی۔ مکتب اہل‌بیت (علیہم السلام) میں بھی اس حوالے سے خاص توجہ دی گئی ہے۔ اگر بعض جانوروں سے دوری اختیار کرنے کی نصیحت کی گئی ہے، تو یہ صرف انسانی صحت، نفسیاتی سکون اور دیگر حیوانات کی فلاح کے پیش نظر ہے۔

انہوں نے سقطِ جنین (اسقاطِ حمل) کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے قتل قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جس گھر میں سقطِ جنین ہوتا ہے، وہاں سکون اور خوشی ختم ہو جاتی ہے اور عجیب و غریب مصیبتیں اس گھر کو گھیر لیتی ہیں۔

حجت‌الاسلام مؤمنی نے کہا کہ غرور اور تکبر کی جڑ جہالت ہے، کیونکہ متکبر انسان اللہ کی عظمت اور قدرت سے غافل ہوتا ہے۔ تکبر دل کو زنگ آلود کر دیتا ہے اور انسان کو ہلاکت کی طرف لے جاتا ہے۔

ریاکاری (دکھاوا) کو انہوں نے نفاق (دوغلاپن) کی علامت قرار دیا اور کہا کہ ریاکار انسان بظاہر اللہ کی بندگی کا اظہار کرتا ہے، مگر اس کا دل کسی اور کی طرف مائل ہوتا ہے۔ اس سے نجات کا واحد راستہ یہ ہے کہ انسان ہر لمحہ اللہ کو اپنا حقیقی مالک سمجھے اور خود کو اس کے سپرد کر دے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha